Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 12

فائزہ نے سب کی طرف دیکھا تو وہ سب سر ہاں میں ہلانے لگے کہ ہاں بولو۔۔۔فائزہ نے پھر فیروز کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی )

ہاں ۔۔۔۔۔۔(اس کہ ہاں بولتے ہی فیروز نے اپنی جیب سے رنگ نکالی اور اس کی انگلی پہنادی اور بولا)

کب سے لے کر گھعوم رہا ہوں اسے آج اسے اپنی صحیح جگہ مل گئی ۔۔۔(اس کہ رنگ پہناتے ہی سب مبارک بعد دینے لگے۔پھر فاہزہ نے فیروز کہ ساتھ مل کر کیک کاٹا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے کے بعد تصبیہا عشاء کی نماز پڑھنے چلی گئی ۔۔۔نماز پڑھ کر جب اس کی نظر کھڑکی پر پڑی تو وہ وہیں کھڑی ہوگئی کیونکہ کھڑکی کچھ فاصلے پر موصب کھڑا ہنس رہا تھا سب کہ ساتھ۔ وہ بلیک جینس پر بلیک جیکٹ پہنے ،ہمیشہ کی طرح لوکٹس لٹکائے ،بالوں کو پیچھے باندھے ہوئے وہ تصبیہا کو بہت اچھا لگا ۔اور اس نے دل میں اپنے رب سے دعا کی )

یا اللہ جب آپ نے اس شخص کو میری قسمت میں لکھا ہے تو اس کہ دل میں بھی میرے لیے محبت ڈال دیں ۔۔۔۔(اس نے صرف دل میں ہی سوچا تھا مگر وہ پروردگار تو دلوں کہ حال جانتا ہے ،اس کا علم تو ہماری شہہ رگ سر بھی زیادہ قریب ہے )

تصبیہا باہر آئی تو جہانگیر اس کہ پاس آیا اور بولا)

ارے آپ کہا چلی گیئں تھیں میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔۔

کیوں ؟ کوئی کام تھا؟(تصبیہا نے سنجیدہ ہوکر پوچھا)

کیا کوئی کام ہوگا تو کیا جب ہی میں آپ کو یاد کر سکتا ہو۔اس کہ علاوہ نہیں ؟(جہانگیر اس کہ تھوڑا قریب ہوکر بولا تو تصبیہا فورا پیچھے ہوئی اور غصے سے بولی )

دور رہ کر بات کریں ۔۔۔۔(وہ غصے سے غرائی تو جہانگیر بولا)

سوری اگر آپ کو برا لگا ہو تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔(جہانگیر نے اس سے معافی مانگی)

آیندہ خیال رکھنا ۔۔۔(تصبیہا نے اسے آآنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا )

موصب جو انھیں بات کرتے دیکھ چکا تھا تصبیہا کو غصے میں دیکھ کر فورا اس کہ پاس آیا اور تصبیہا سے بولا )

کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے؟ (موصب نے فکر مندی سے پوچھا تو تصبیہا کہ بولنے سے پہلے جہانگیر بولا )

کیا ہونا ہے ۔۔کچھ بھی نہیں سب ٹھیک ہے ۔تو ایسے کیوں پوچھ رہا ہے؟ (جہانگیر کو موصب کا تصبیہا کہ لیے فکرمند ہونا ٹھیک نہیں لگا ۔۔موصب نے جہانگیر کی طرف دیکھا پھر تصبیہا کا ہاتھ پکڑکر وہاں سے لے گیا ۔جہانگیر نے اپنی مٹھیاں بیچ لیں تصبیہا کا ہاتھ ،موصب کہ ہاتھ میں دیکھ کر۔۔۔)

سب ٹھیک ہے نا ؟ کیا کہہ رہا تھا وہ ؟(چلتے ہوئے موصب نے اس کی طرف چہرا کیا اور بولا)

کیا کہہ سکتا ہے ۔۔کسی کی اتنی ہمت کہ تصبیہا کو کچھ کہہ دے ۔۔۔(تصبیہا نے ابرو اچکا کر کہا اور بولی)

ہاتھ تو چھوڑو میرا ۔۔(یہ کہہ کر اسنے موصب کہ ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور فایزہ کی طرف چل دی ۔موصب اسے جاتا دیکھ رہا تھا اورمنہ میں بڑبڑایا )

کس کو اپنی شامت بلوانی ہے۔۔۔(وہ مسکرایا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات انھیں کافی ہوگئی تھی تو وہ سب رات کو وہیں سو گئے ۔۔۔تصبیہا اور فایزہ ایک کمرےمیں تھیں اور باقی لڑکہ الگ کمرے میں ۔۔

تصبیہا کو نیند نہیں آرہی تھی تو وہ باہر لون میں جاکر بیٹھ گئی ۔۔۔بال اس کہ کھلے ہوئے تھے تو اس ککہ بال کافی لمبے اور گھنے تھیں ۔وہ کوئی نہیں تھا اس لیے اس نے اسکارف نہیں پہنا ہوا تھا ۔ موصب کو بھی نیند نہیں ارہی تھی بار بار اس کہ آنکھوں کہ سامنے جہانگیر کا چہرا آرہا تھا جب وہ تصبیہا کو دیکھ رہا تھا ۔۔وہ اٹھا اور کھڑکی میں کھڑا ہوا تو باہر تصبیہا کو بیٹھے دیکھا )

یہ اتنی رات کو کیوں یہاں بیٹھی ہے ۔۔۔(وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر آگیا اور جن تصبیہا کہ برابر میں جا کر بیٹھ گیا ۔تصبیہا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور بولی )

تم۔۔۔ تم سوے نہیں ۔۔(تصبیہا نے اس سے پوچھا تو وہ بولا)

میں بھی یہ ہی جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔(موصب نے اس کی آنکھوں دیکھتے ہوئے کہا تو تصبیہا نے اپنا چہرا موڑ لیا اور آسمان کو دیکھنے لگی اور بولی )

نیند نہیں آرہی تھی اس لیے باہر آگئی۔
نیند کیوں نہیں آرہی ؟

پتا نہیں ۔۔(اس نے کندھے اچکاکر کہا ۔ہوا بہت اچھی چل رہی تھی تصببیہا کہ بال اڑ اڑ کر اس کہ چہرے پر آرہے تھے ۔موصب کا کیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے تصبیہا کہ چہرے سے بال ہٹائے پھر اپنے دل کو ڈپٹا اور بولا)

تصبیہا (موصب نے اسے نرمی سے پکارا )

ہممم(وہ اسے بغیر دیکھے بولی)

بال باندھو اپنے۔۔۔

کیا ؟؟ (اس نے ناسمجھی سے موصب کو دیکھاا)

تم نے سن لیا ہے جو میں نے کہا ہے ۔۔(موصب اور اپنی بات دھرائے،ایسا ہو نہیں سکتا

تصبیہا نے پہلے اسے گھورا پھر چپ چاپ اپنے بال سمیٹھ کر ڈھیلا سا جوڑا بنالیا۔ کچھ دیر تو وہ دنوں خاموشی سے بیٹھے رہے ۔۔ کہتے ہیں خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے ۔۔۔

کچھ دیر بعد تصبیہا بولی )

موصب تم سے ایک بات کہوں ؟

تم کب سے اجازت لینے لگیں اور بھی بولنے سے پہلے۔۔(موصب نے مسکراتے ہوئے کہا )

میں سنجیدہ ہو۔۔۔(تصبیہا نے اس دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولا)

اچھ بولو۔۔

نہیں پہلے تم وعدہ کرو کہ غصہ نہیں کرو گے ۔۔۔(تصبیہا نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا)

ایسا کیا کیا ہے تم نے ؟؟(موصب نے اسے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے دیکھا )

پہلے وعدہ تو کرو۔۔۔۔(تصبیہا نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تو موصب نے اپنا ہاتھ اس کہ ہاتھ پر رکھ دیا اور بولا)

اب بولو۔۔۔۔(وعدہ لینے کہ بعد تصبیہا نے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا مگر موصب نے نہیں چھوڑا اور بولا)

پہلے بتاو کیا بھنڈ کیا ہے۔۔۔۔(تصبیہا کو پتا تھا اب جب تک بات نہیں سنے گا وہ ہاتھ نہیں چھوڑے گا تو تصبیہا بولی)

وہ ۔۔۔۔۔ شاہ کسی کو پسند کرتا ہے اور وہ تمہارے غصے اور ناراضگی کی وجہ سے کسی کو بھی یہ بات نہیں بتارہا ۔وہ کہتا ہے کہ تم نے منا کیا ہے ۔ پلیز اس کا رشتہ اس لڑکی سے کروادو ۔۔۔(تصبیہا معصوم سے شکل بنا کر کہا)

میں تمہیں رشتے کروانے والی آنٹی لگ رہا ہو جو مجھ سے کہہ رہی ہو۔۔۔اور اس شاہ کہ بچے سے تو میں پوچھتا ہوں ۔۔(وہ کہتا ہوا اٹھا تو تصبیہا نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے چھنچ کر بیٹھالا )

تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم غصہ نہیں کرو گے (تصبیہا نے انگلی اٹھا کر اس سے کہا)

موصب خاموشی سے بیتھ گیا ،تصبیہا پھر سے بولنا شروع ہوئی )

موصب وہ پریشان ہے ۔کیونکہ نور اس سے ناراض ہے ۔۔۔(تصبیہا ہلکے لہجے میں بولی)

بس اسی وجہ سے میں مناکرتا ہوں ،کڑکیوں کہ چوچلے ہی ختم نہیں ہوتے (موصب نے منہ بناکر کہا)

کیا مطلب ہے اس بات کا ؟(تصبیہا آواز میں سختی تھی)

بات بات پر ناراض ہوجاتیں ہیں ،اب وہ بیچارا تو ٹینشن میں آگیا نا ۔نا وہ صحیح سے کام کر سکتا ہے نا کچھ اور بس اسی کہ خیالوں میں گھم رہتا ہوگا۔۔(موصب نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا)

تو وہ پریشانی تم دور کرسکتے ہونا ۔۔(ان وہ چڑگئی تھی)

وہ کیسے؟

تم موم ،ڈیڈ سے بات کرو اور اس کا رشتہ لے کر نور کہ گھر چلے جاو ،ورنہ اس کہ گھر والے کہیں اور اس کا رشتہ کردیں گے یار پلیزززززززززززز ۔۔(تصبیہا نے اس سے ریکویسٹ کی )

پہلی اور آخری دفعہ تم سے کچھ مانگ رہی ہوں پلیز مان جاو۔۔۔(وہ بچوں کی طرح کہہ رہی تھی ۔موصب نے اپنی ہنسی کوروک کر بولا)

رات زیادہ ہوگئی ہے چلو اندر ۔۔۔

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وہ کچھ اور بولتی کہ موصب بولا)

میں کہہ رہا ہوں نا اندر جاو۔۔۔۔(اس کہنے پر وہ غصے سے اٹھی اور اسے غصے سے دیکھتے ہوئے اندر چلی گئی۔۔موصب بھی اس کہ پیچھے اندر چلا گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سب دیر سے سو کر اٹھے ۔۔۔۔ فائزہ اور تصبیہا نے مل کر ناشتہ بنایا ۔ وہ سب ٹیبل پر بیٹھے تھے تصبیہا اور فائزہ نے ناشتہ لگایا ۔جہانگیر ابھی تک نہیں آیا تھا ۔)

جہانگیر کہا ہے؟ (فائزہ نے پوچھا)

وہ تیار ہورہا ہے آرہا ہے ۔۔۔۔(شاہ نے جواب دیا)

سعد،شاہ اور موصب ایک سائیڈ پر ببیٹھے تھے اور دوسری سائیڈ پر فیروز ،فائزہ تھے ۔تصبیہا بھی جا کر فائزہ کہ برابر میں بیٹھ گئی۔ موصب بلکل تصبیہا کہ سامنے بیٹھا تھا ۔ تھوڑی دیر میں ہی جہانگیر بھی آگیا اور سیدھا جاکر تصبیہا کی برابر والی کرسی پر اس کہ برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔موصب نے اپنی مٹھیاں پیچ لیں ۔سعد ،شاہ اور فیروز نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر موصب کو ۔

چلو بھئی ناشتہ شروع کرو۔۔(فائزہ بولی۔۔۔سب نے ناشتہ شروع کیا مگر موصب کی بھوک اوڑ گئی تھی۔ ناشتے کے دوران جہانگیر بار بار تتصبیہا سے کہہ رہا تھا کہ اٹھا دو ،وہ دے دو۔۔۔۔۔۔اور موصب کی شکل اس وقت دیکھنے والی تھی۔۔۔۔۔موصب نے ایک نولا بھی نہیں کھایا ۔اس کا سارا دھیان دوسری طرف تھا۔تھوڑی دیر میں تصبیہا اٹھی تو جہانگیر بولا)

آرے کہا جارہی ہیں آُپ؟

بس کرلیا ناشتہ میں نے۔۔(تصبیہا نے اپنے لہجے کو نورمل رکھتے ہوئے کہا ،موصب ان دونوں ہی کو دیکھ رہو تھا)

اتنی جلدی ؟ کوئی نہیں بیٹھیں یہاں اور پورا کریں اسے ۔۔(وہ اس طرح دھونس جماکر کہہ رہا تھا جیسے ان کہ درمیان بہت گہری دوستی ہو۔۔۔۔ موصب کو اب تصبیہا کہ جواب ک انتیظار تھاا)

آپی اتنا ہی کھاتیں ہیں ۔۔(تصبیہا کچھ کہتی اس سے پہلے شاہ بول پڑا جو کب سے برداشت کررہا تھا ۔۔۔تصبیہا وہاں سے چلی گئی ۔کچھ دیر بعد موصب اٹھا اور وہ بھی باہر نکل گیا ۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسب نے سب کو جلدی نکلے کہ لیے کہا تو فائزہ بولی 9

ابھی سے ۔۔۔پلیز موصب ابھی تو ہم نے صحیح سے تمہارا فارم ہاوس دیکھا بھی نہیں ہے ۔۔۔

خدا کا خوف کرو کل صبح سے اپ یہاں ہیں میڈم ۔۔۔(موصب تنضیہ بولا)

یار وہ تو ہم سارا دن تیاریاں کررہے تھے ۔۔۔(فائزہ نے منہ بناکر کہا)

بھائی رکھ جاتے ہیں نا ،کبھی کھبی تو ٹائم ملتا ہے ۔۔۔(یہ شاہ تھا جو موصب سے التجیائی انداز میں بولا)

تم تو رہینے ہی دو ،تمہیں تو میں بعد میں پوچھوں گا بیٹا(موصب نے ذومعنی انداز میں کہا)

میں کیا ہے اب ؟(شاہ کو کچھ گڑبڑ لگی)

تصبیہا نے موصب کو آنکھیں دیکھائیں کہ کہیں وہ یہیں شروع نا ہوجائے شاہ پر۔۔موصب بولا)

ٹھیک ہے تم لوگوں کی مرضی ۔۔۔۔(وہ کہہ کر ایک فون کرنے چلا گیا)

چلو کرکٹ کھلتے ہیں ۔(فیروز بولا تو تصبیہا بولی)

بیڈ اور بول کہا ہے ؟ اس کے بغیر کیسے کہلیں گے۔۔۔

میں ملی بابا سے پوچھتا ہوں (شاہ بولا اور اندر چلا گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پورا دن وہ کرکٹ اور مختلف گیمس کھلتے رہے جس میں موصب شامل نہیں تھا اس کا مونڈ صبح والے واقع سے ہی خراب تھا ۔۔بیچ میں تصبیہا گئی تھی اسے بولانے )

موصب تم نہیں کھلو گے ؟ چلو نا سب تمہیں بلارہے ہیں ۔۔۔

مییں نہیں جارہا ۔تم جاو انجوائے کرو۔۔۔۔۔(وہ موبائل میں دیکھتا ہوا بولا تو وہ کھندھے اچکا کر چلی گئی ۔موصب اسے جاتا دیکھتا رہا )

شام کے وقت جب سب چائے پی رہے تھے تو تصبیہا موصب کی چائے لے کر اندر گئی وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا ۔۔۔تصبیہا اندر آئی اور بولی)

موصب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہممم (وہ صرف اتنا ہی بولا)

چائے پی لو۔۔ وہ چائے اس کے برابر میں رکھے ہوئے بولی تو وہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا)

یاد آگئی تمہیں میری ۔۔۔۔۔۔(انداز اکھڑا ہوا تھا۔۔تصبیہا خاموش رہی مگر وہ حیران بھی تھی کیونکہ وہ موصب ایسا پہلی پرتبہ دیکھ رہی اور ایسی بات تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی اس کہ منہ سے سننے کا ۔۔)

تمہیاری طبیت ٹھیک ہے ؟ (تصبیہا نے اس سے آرام سے پوچھا)

سر میں درد ہورہا ہے ۔۔۔(وہ نرمی سے بولا)

تو دوا کھالو۔۔کہا رکھی ہے میں دوں ؟ (تصبیہا نے اس سے کہا اور جانے لگی تو موصب نے اگے ہو کر اس کا ہاتھ پکڑ کر کھنچا ۔تو وہ اس سب کہ لیے تیار نہیں تھی اسی لیے موصب کہ اوپر گری۔۔ موصب کا ایک ہاتھ اس کی کمر پر تھا ۔تصبیہا نے چہرا اتھا کر اسے گھورا اور بولی )

یہ کیا بدتمیزی ۔۔(وہ غصے سے بولی مگر اس کا دل زور زور سے ڈھڑک رہا تھا ۔۔۔ موصب نبا کچھ کہے دوسرے ہاتھ سے اس کہ بال ،جو اس کہ چہرے پر آگئے تھے ۔ہٹانے لگا ۔۔۔ وہ اٹھنے لگی تو موصب نے احصار کو اور تنگ کردیا ۔۔۔

موصب چھوڑو مجھے ۔۔۔ (تصبیہا نے اپنے آپ کو چھوڑوانا چاہا تو وہ بولا )

آنکھیں نکال لوں گا میں اسکی ۔۔۔(موصب نے جس طرح غصے سے کہا تھا تو تصبیہا پوچھے بنانا رہ سکی )

کس کی بات کررہے ہو؟

اس کوئی حق نہیں ہے تمہیں دیکھنے کا ۔۔۔۔(موصب نے اس کا گال سہلاتے ہوئے ایک سحر میں کہا تو تصبیہا سانس لینا بھول گئی ٰ)

آپیییییی کہا ہو یارررر(شاہ اسے ڈھونتے ہوئے آیا اور اسے آواز لگائی تو تصبیہا بولی )

شاہ ارہا ہے موصب ،چھوڑو مجھے ۔۔(تصبیہا نے اس سے کہا تو وہ بولا)

یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔۔۔(اس نے ایک سحر انگیز انداز میں کہا اور اپنا ہاتھ اس کی کمر سے ہٹایا وہ فورا اٹھی اور باہر بھاگ گئی ۔ موصب کا دل کیا شاہ کو پکڑ کر خوب مارے )

کہا تھیں آپ ؟ کب سے ڈھھنڈرہا ہوں ۔۔۔(وہ کمرے سے باہر آئی تو شاہ اسے دیکھ کر بولا9

وہ میں موصب کو چائے دینے گئی تھی ۔۔۔(تصبیہا نے نورمل انداز رکھتے ہوئے اسے کہا )

دینے گئیں تھیں یا اپنے ہاتھ سے پلا رہیں تھیں ۔۔۔(شاہ نے مزاق میں کہا ۔تصبیہا نے نظر اٹھا کہ اسے دیکھا تو بولا )

سوری آپی میں مزاق کررہا تھا۔۔(شاہ سمجھ گیا تھا کہ تصبیہا کو اس کی بات پسند نہیں آئی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر میں موصب نے سب کو نکلنے کا کہا اور نکلتے نکلتے مغرب کا ٹائم ہوگیا ۔ تصبیہا بولی )

میں نماز پڑھ لوں پھر نکلتے ہیں ۔(وہ کہہ کر چلی گئی ۔موصب کال سن کر واپس آیا تو بولا)

چلو نکلے نہیں ابھی تک اور تصبیہا کہاں ہے ۔۔۔

وہ نماز پڑھنے گئی ہے۔۔ (جہانگیر بولا تو موصب نے نے دانت بیچ لیے )

تم لوگ نکلو ،راستہ لمبا ہے اور موسم بھی ٹھیک نہیں ہے ۔۔(موصب نے شاہ سے کہا)

تصبیہا آئے تو ساتھ ہی نکلتے ہیں ۔۔(یہ جہانگیر تھا ،موصب کچھ کہتا اس سے پہلے شاہ بولا)

نہیں بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمیں نکلنا چاہیے ،،،بھائی آپی کو آپ لے آیئے گا۔۔۔(شاہ بھی اپنے بھائی کا چہرا دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ یہ دفعہ اور بولا تو جہانگیر تو گیا ۔وہ زبردستی اسے لے گیا ۔۔۔سب گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔ موصب اندر آیا تو وہ نمازپڑھ رہی تھی وہ اندر گیا وضو کرکہ باہر آیا اور تصبیہا کہ آگے جائے نماز بیچھائی اور نماز پڑھنی شروع کردی ۔۔

تصبیہا نے سلام پھرا تو موصب کو نماز پڑھتے پایا وہ مسکرائی اور اذکار کرنے لگی۔ پھر دعا کہ لیے ہاتھ اٹھائے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کیا مانگے ۔۔مگر اللہ تو جانتا ہے نا جو ہمارے گمان ب میں بھی ہے )

نماز پڑھ کر باہر آئی تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔وہ پریشان ہوگئی پھر اندر ائی تو وہ نماز پڑھ رہا تھا وہ وہیں بیٹھ گئی اور اس کی نماز ختم ہونے کا انتیظار کرنے لگی۔ وہ نماز ختم کرکہ اٹھا تو وہ بولی)

سب کہاں ہیں ؟
چلے گئے ۔

مجھے چھوڑ کہ کیسے جاسکتے ہیں وہ۔

میں ہونا تمہارے پاس ۔۔(وہ مسکرا کر بولا تصبیہا نے اسے گہورا)

چلیں دیر ہورہی ہے ۔۔۔(موصب نے اس سے کہا)

اب کوئی اور اوپشن ہے ؟(تصبیہا نے الٹا اس سے سوال کیا)

اگر ہوتا تو ؟(موصب کو اس کی یہ بات دل پر لگی)

تو تمہیں ہی چونتی ۔۔(یہ بات اس نے اپنے دل میں کہی مگر بولی کچھ نہیں اور کھڑی ہوگئی)+



   1
0 Comments